جو اب تک 23لاکھ گھرانوں میں 53ارب روپے کے قر ضہ جات جاری کر چکا ہے جن کی ریکوری سو فیصد رہی اور اس وقت اخوت کے پاس 14ارب روپے مجموعی طورپر موجو د ہیں
بے فیض اگر یوسف ثانی بھی ہو تو کیا ہے۔ اصل چیز تو انسان کی سوچ اور رویے ہوتے ہیں جو اسے دوسروں سے نمایاں اور خوبصورت بناتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کا شمار بھی ایسے ہی خوبصورت اور نمایاں لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے خلوص، سادگی اور جذبہ اخوت کے باعث بے شمار آنکھوں میں امید کا جگنو بن کر چمکتے ہیں۔ڈاکٹر امجد ثاقب فروری 1957ء میں کمالیہ میں پیدا ہوئے۔ اس گھرانے کا پس منظر زمیندارانہ ہے۔ کمالیہ میں ابتدائی تعلیم کے بعد وہ لاہور چلے آئے۔ 1974ء میں گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کے بعد انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ انہوں نے کچھ عرصہ میو ہسپتال میں ہاؤس جاب کی پھر اس پیشہ سے ذہنی مناسبت نہ ہونے کے سبب سول سروس کی طرف راغب ہوئے۔ امجد ثاقب کا تعلیمی سفر ہمیشہ شاندار رہا تھا اسی لئے جب انہوں نے 1985ء میں سی ایس ایس کا امتحان دیا تو پورے پنجاب میں پہلی اور ملک بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد ڈاکٹر امجد ثاقب کو پہلی بار شیخوپورہ میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا۔ وہ شورکوٹ اور چنیوٹ میں بھی اے سی رہے۔ ان کی آخری پوسٹنگ شہبازشریف دور میں چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری کی تھی۔ سرکاری ملازمت سے چھٹی لے کر انہوں نے 1998ء میں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام میں کام شروع کر دیا جس کا مقصد غربت کا خاتمہ تھا۔ یہ اچھا موقع تھا جب امجد ثاقب کو غریب لوگوں کی محرومیاں زیادہ قریب سے گہری نظر کے ساتھ دیکھنے کا موقع ملا۔ اسی دوران انہوں نے سینکڑوں لوگوں سے غربت کے معنی سمجھنے کی کوشش کی۔ انہیں غربت کی سب سے اچھی تعریف ایک بزرگ کی لگی جنہوں نے کہا ’’غربت مال و دولت سے محرومی کو نہیں کہتے، یہ تو اکیلے رہ جانے کا نام ہے‘‘ یہی وہ دن تھے جب ڈاکٹر امجد ثاقب نے سرکاری ملازمت کو اپنے مزاج سے ہم آہنگ نہ پا کر اس سے استعفی دے دیا۔ ان کا کہنا تھا ’’ملازمت ان آئیڈیلز کے حصول میں مزاحم ہو رہی تھی جن کا حصول ان کا مقصد بن رہا تھا، ملازمت چھوڑنے کے بعد ان کی زندگی زیادہ خوشحال ہو گئی۔ وہ آج اخبارات میں کالم نگاری کے علاوہ لمز LUMS میں جزوقتی کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں کو کنسلٹنسی فراہم کرنے کے علاوہ کنسٹرکشن کا کاروبار بھی چلا رہے ہیں۔
“بزنس پاکستان “کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اخوت فاؤ نڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائر یکٹرڈاکٹر امجد ثاقت نے کہا کہ اخوت فاؤ نڈیشن پاکستان میں سب سے بڑا مائیکرو فنانس (قرض حسنہ)کا سب سے بڑا پروگرام ہے ۔جو اب تک 23لاکھ گھرانوں میں 53ارب روپے کے قر ضہ جات جاری کر چکا ہے جن کی ریکوری سو فیصد رہی اور اس وقت اخوت کے پاس 14ارب روپے مجموعی طورپر موجو د ہیں۔اخوت بھکاری نہیں بلکہ سفید پوش شہریوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کر نے کے لیے قر ض حسنہ دیتا ہے جس کا بھرپور استعمال کر کے اپنی معاشی حالت بدلتے بیشتر خاندانوں کو دیکھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اخوت مثبت سوچ پیدا کر نے کا نام ہے اور اس کی سوچ سے وابستہ افرادکی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ویژن ملک کی تعمیر اور غربت کا خاتمہ ہے اور ایسا معاشرہ بنانا ہے جس میں ہر شخض کو عزت و احترام ملے ۔اسی لیے اخوت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے مجبور شہریوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے انہیں قر ضہ حسنہ جاری کرتی ہے جس سے وہ کوئی روزگار شروع کر کے اپنی معاشی حالت نہ صرف بدلتا ہے بلکہ کسی کا محتاج نہیں رہتا ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ اخوت کے پلیٹ فارم سے یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ابتدائی طورپر 350کے قریب طالب علم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کا مقصد محض صرف دنیاوی تعلیم دینا نہیں بلکہ طالب علموں کی مثبت سوچ اور صلاحیتوں کو نکھارنا ہے جو مستقبل میں اخوت کا سوچیں ان میں احساس پیدا کرنا کہ زندگی اپنے لیے نہیں ہے بلکہ دوسروں کی خدمت کر نے کا نام ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے یونیورسٹی کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کے لیے فی اینٹ 1ہزار روپے نرخ مقر ر کیے ہیں اور اب تک 4لاکھ اینٹیں صاحب حیثیت لو گ خرید چکے ہیں جن کی مجمو عی طورپر مالیت 40کروڑ روپے بنتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج یہ ادارہ ’’الحمدللہ‘‘ دنیا بھر میں بلاسود قرضوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اخوت قرضوں کے علاوہ تعلیم (اخوت کالج، اخوت یونیورسٹی)، صحت عامہ، کلاتھ بنک اور دیگر رفاحی کاموں میں بھی مصروف عمل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مساجد اخوت کے پروگرام کا بنیادی حصہ ہیں۔ ادارے کے تمام دفاتر مساجد کے اندر یا ان کے ساتھ قائم کئے گئے ہیں۔ قرض خواہوں کی سماجی رہنمائی کا کام مسجد میں کیا جاتا ہے، انہیں رقم بھی وہیں دی جاتی ہے۔ اخوت کا عملہ ریکوری بھی مسجد کے اندر بیٹھ کر کرتا ہے۔ اخوت نے پچھلے مالی سال 5 ہزار ضرورت مندوں کو قرض دیا۔ ریکوری کا ریٹ سو فیصد رہا۔ صرف ڈیتھ کیسز کی وجہ سے معمولی کمی بیشی ہوئی کیونکہ قرض خواہ کی وفات پر اس کے ذمہ بقایا رقم معاف کر دی جاتی ہے۔ اخوت نے غیر مسلم افراد کے لئے بھی اپنا دامن کشادہ کر رکھا ہے۔ دیکھنے میں پچاس ہزار کی رقم بہت کم لگتی ہے لیکن ارادہ محنت اور اپنی حالت بدلنے کا ہو تو بے شمار کام ممکن ہیں۔ اتنی رقم سے پرچون کی دکان، سلائی کڑھائی، فروٹ ریڑھی، فروٹ چاٹ، دہی بھلوں کی دکان، گدھا گاڑی، سائیکل مرمت، پان شاپ، چائے کا کھوکھا، نان چنے، بچوں کی ہوزری، کولر کا ٹھنڈا پانی، سردیوں میں انڈوں کی فروخت، پاپڑ، فرنچ فرائز کی مشین اور ڈاؤن پے منٹ پر رکشہ کا حصول سمیت بے شمار کام ممکن ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا ہے ’’خدا نے اپنی راہ میں دینے والے کے لئے کئی گنا زیادہ کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ خود میں نے لوگوں کو قرض حسنہ دیا تو میرے وسائل بڑھ گئے۔ میری زندگی میں سکون آنے لگا۔ یقین کریں قرض حسنہ دینے والوں کا رزق کبھی کم نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا کرنے والوں کی دولت میں اضافہ اور ان کی زندگی آسان ہوتی ہے۔ بنکوں میں اربوں، کروڑوں جمع رکھنے والے مالدار اگر غریبوں کو ادھار دے کر کاروبار کی طرف مائل کریں تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے کیونکہ غربت بھیک نہیں اشتراک سے ختم ہوتی ہے۔‘‘
اخوت کا تصور ’’مواخاتِ مدینہ‘‘ کی قدیم اسلامی روایت سے لیا گیا ہے۔ یہ ادارہ مواخات، بھائی چارہ، ایثار اور قربانی جیسے نظریات پر قائم ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے اس ادارے نے کئی طرح کی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ اس حکمت عملی میں تنظیم سازی، تربیت، چھوٹے قرضوں اور تعلیم و صحت جیسی سہولتوں کی فراہمی سب سے اہم ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ تمام کام اور خاص طور پر چھوٹے قرضے اخوت کی منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ یہ قرضے ان افراد کو دیئے جاتے ہیں جو سرمایہ کی کمی کی وجہ سے غربت کا شکار تو ہیں مگر کسی کاروبار کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔
* اخوت کے قرضے بلاسود بنیادوں پر دیئے جاتے ہیں۔ ان قرضوں کی حد 50ہزار روپے تک کی ہے۔ یہ قرضے شخصی یا سماجی ضمانت کے اصولوں پر دیئے جاتے ہیں۔
* ہر وہ شخص جس کی ماہانہ آمدنی 8 ہزار یا اس سے کم ہے، قرضے کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔
* اخوت کی ہر برانچ ایک مسجد یا کسی بھی اور مذہب کی عبادت گاہ سے منسلک ہوتی ہے۔ ابھی تک اس ادارہ کی 709 برانچز مساجد اور چرچ میں قائم ہو چکی ہیں۔
* یہ قرضے زیادہ تر کاروباری مقاصد کے لئے دیئے جاتے ہیں۔
* اخوت عطیات کے لئے معاشرے کے مخیر افراد سے رجوع کرتا ہے جو زکوٰۃ، صدقات اور عطیات سے اس ادارے کی مدد کرتے ہیں۔
*اخوت بے جا انتظامی مصارف اور قرضوں کی تقسیم پر اٹھنے والے اخراجات کا بوجھ غریب لوگوں پر نہیں ڈالتا۔ یہ بوجھ باہمی تعاون سے اٹھایا جاتا ہے۔
*اخوت غربت کے خاتمے کو کاروبار نہیں سمجھتا بلکہ اہم سماجی اور دینی فریضہ سمجھتا ہے۔
*ہم بھیک یا خیرات کی بجائے تعاون اور اشتراک پہ یقین رکھتے ہیں۔ ہمارا اولین مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔
*یہ پروگرام اب تک 23لاکھ سے زائد گھرانوں میں 52 ارب سے زیادہ رقم کے قرضے تقسیم کر چکا ہے جن کی واپسی کی شرح اللہ کے فضل سے سو فیصد ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو اخوت کی بنیاد رکھنے کے علاوہ اخوت کالج، اخوت یونیورسٹی اور اخوت کلاتھ بنک کے قیام کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ سات کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے پیش نظر حکومت پنجاب نے انہیں کئی ایک رضاکارانہ ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں۔ وہ پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ برائے معذوراں کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ اس ٹرسٹ سے اب تک کئی لاکھ معذور افراد مستفید ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کے وائس چیئرمین ہیں۔ یہ فنڈ تعلیمی شعبہ میں قائم ملک کا سب سے بڑا فنڈ
ہے اور اس کے چیئرمین کا عہدہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ممبر پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی، ممبر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن، ممبر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کی سنڈیکیٹ کے رکن، نینل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ، پنجاب ریڈ کریسنٹ سوسائٹی اور کئی دیگر سماجی اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے انہیں پرائم منسٹر بلاسود قرضہ سکیم کی سٹیئرنگ کمیٹی کا چیئرمین پرسن بھی مقرر کیا ہے۔ لاہور میں ذہنی بیماریوں کے ایک بہت بڑے ادارہ فاؤنٹین ہاؤس کی باگ ڈور بھی ان کے پاس ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو ان کی گراں قدر سماجی خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان نے 2010ء میں ستارہ امتیاز پیش کیا۔ اس کے علاوہ حکومت پنجاب کی طرف سے خوش حال خان خٹک ادبی ایوارڈ (1993ء) اور ابوظہبی اسلامک بنک کی طرف سے 2013ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی طرف سے انہیں ’’2015ء ہیومن رائٹ ایوارڈ‘‘ بھی پیش کیا گیا۔ 2017ء میں انہیں نیویارک میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (ECOSOC) Economic and Social Council سے خطاب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔